Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

وہ بیڈ پر دراز چھت کو گھور رہا تھا سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل فون متواتر بج رہا تھا ،وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری تھا دوسری طرف جو بھی تھا اس کے مزاج میں مستقل مزاجی و برداشت کا ذخیرہ شاید وافر مقدار میں موجود تھا کہ ہر پانچ دس منٹ کے وقفے کے بعد اس کا شغل جاری تھا۔ ادھر شیری بھی اپنی سوچوں میں گم اس مسلسل آنے والی بیل کو سن رہا تھا ممی کی طبیعت سنبھلی تھی اور اس بار وہ اس سے شدید اصرار کر رہی تھیں کہ وہ شادی کیلئے ہامی بھرے اور اس بار ممی کے ساتھ دونوں بہنوں نے بھی اس کا ناک میں دم کر دیا تھا وہ کسی نہ کسی طرح اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں ان کو عادلہ کو بھی بہو بنانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔

وہ عادلہ کو اس نظر سے دیکھتا ہی نہ تھا ،اس کی تو نس نس میں ایک ہی سراپا لہو پن کر دوڑتا تھا جس کو بھلانے کی سعی میں وہ خود کو بھولنے لگا تھا مگر وہ ہوشربا چہرہ اس کے ذہن کی اسکرین پر ہر لمحہ ،ہر پل متحرک رہتا تھا۔


دل بھی عجیب تھا۔
اس کی چاہت میں گرفتار ہو گیا تھا جو اس کی پرچھائیں سے بھی نالاں تھی۔ بیل نے اس کو کال ریسیو کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”یس۔“ کان سے فون لگا کر تکیے کے سہارے بیٹھتا وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
”یہ کیسا بی ہیو ہے شیری! میں کتنے دنوں سے کال کر رہی ہوں اور تم کو ریسیو کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔“ اس کی آواز میں نمی تھی۔
”تم اتنی نانسینس ہو گی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔“ اس نے سائیڈ سے سگریٹ اور لائٹر اٹھاتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟“ وہ چیخ اٹھی۔
”میرا مطلب ہے میں اتنے دنوں سے تمہاری کال ریسیو نہیں کر رہا تھا تو اس کا صاف مطلب ہے میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا ،اٹس ویری سمپل۔“
”کیوں بات کرنا نہیں چاہتے؟ پلیز پلیز کیا خطا ہوئی مجھ سے بتاؤ نہ؟“
”پلیز عادلہ! یہ رونے کا ڈرامہ بہت بور کرتا ہے ،تم کیوں کر رہی ہو ایسا؟ میں نے تمہیں بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ میں نے تم سے صرف فرینڈ شپ کی ہے۔
“ وہ اپنے مخصوص اکھڑ انداز میں بات کر رہا تھا۔
”لیکن… میں تم سے محبت کرتی ہوں ،شیری!“ وہ روتے ہوئے بولی۔
”لیکن میں تم سے محبت نہیں کرتا۔“ وہ سنگ دل بنا ہوا تھا۔
”میں مر جاؤں گی ،ایسے مت کہو خدا کے واسطے ،مجھ پر رحم کرو۔“ اس کے سفاک رویئے نے عادلہ کو گڑگڑانے پر مجبور کر دیا تھا۔
”رحم ہی تو کر رہا ہوں ،اب تم بھی خود پر رحم کھاؤ اور میرا پیچھا چھوڑ دو ،میری دوستی کو تم نے غلط رنگ دیا ہے۔
”تم جھوٹ کہہ رہے ہو ،وہ دوستی نہیں تھی ،تم میری اتنی کیئر کرتے تھے ،میرا خیال رہتا تھا تم کو ،تم تمام فاصلے مٹا کر میرے قریب آ گئے تھے۔ یہ دوستی میں نہیں محبت میں ہوتا ہے پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو ،وہ دوستی تھی۔“ وہ سسک رہی تھی جبکہ شیری کے چہرے کی بے زاریت لہجے سے بھی عیاں ہونے لگی۔
”میں بھی ایسی کوئی بات سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ،مجھے ڈسٹرب مت کرو۔
”یہ میری زندگی کا سوال ہے اور تم مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے شیری! اگر تم نے اپنے وعدے سے پھرنے کی کوشش بھی کرنی چاہی تو میں تم کو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑو گی۔“ وہ زخمی ناگن کی طرح پھنکاری۔
”ہا ہا ہا… اچھا مذاق ہے ،ذرا یہ کرکے تو دیکھو پھر بتاتا ہوں تم کو۔“ اس نے لائن ڈسکنکٹ کر دی اور آنکھوں میں اس کی ایک چمک سی لہرائی اس کو وہ سب یاد آیا جب ایک وقت میں وہ اور عادلہ بہت قریب آ گئے تھے۔
###
فاخر نے گھر میں قدم رکھا تو دیسی کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے اس کا بھرپور استقبال کیا تھا اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزرا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے زینب کو سلام کیا بریف کیس ٹیبل پر رکھ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے شوز اتارنے لگا ،اس اثناء میں زینب بھی قریب آ کر بیٹھ گئی تھیں۔
”آج میں نے تمہاری پسندیدہ شز بنائی ہیں۔
“ پھر اس کو دیکھ کر بولیں۔
”کیا بات ہے تمہاری مسکراہٹ میں اتنی اداسی کیوں ہے فاخر۔“
”مما بھی اسی طرح کھانے بناتی ہیں ،آج کھانے کی خوشبو نے مما سے دوری کا احساس شدت سے دلایا ہے۔“ وہ سادگی سے بولا۔
”بات تو یہی ہے بھابی جان نے بہت محبت دی ہے آپ کو ،خیر وہ بہت جلد آ جائیں گی تم اداس مت ہو ،فٹا فٹ چینج کرکے آ جاؤ میں اتنے میں کھانا لگاتی ہوں پھر کافی پئیں گے۔
”آپ نے بٹلر کو چھٹی دے دی ہے ،خاصی مدد کر سکتا تھا وہ آپ کی۔“ وہ کہتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا ،زینب کھانا لگانے لگی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہ کافی کے مگ اٹھائے ٹیرس پر آ گئے تھے۔
ماحول میں خاصی ٹھنڈک اتر آئی تھی کراچی کی نسبت یہاں قدرے ٹھنڈ تھی۔
”میں دو دن بعد چلی جاؤں گی فاخر!“ وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
”اتنی جلدی کیوں جا رہی ہیں آپ؟ ابھی آپ کو ہفتہ بھی نہیں ہوا یہاں آئے۔“
”میں یہاں یہ معلوم کرنے کیلئے آئی تھی کہ تمہارے ارادے کیا ہیں؟ عائزہ کو تم معاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہو یا اس کو مزید سزا کی سولی پر لٹکائے رکھنے کا ارادہ ہے اور تم کچھ کہہ کر ہی نہیں دے رہے ہو ،وہاں آپی سوچ رہی ہوں گی میں یہاں سیر سپاٹے کرتی پھر رہی ہوں ان کی پریشانی کا مجھے کوئی خیال نہیں ہے۔
“ وہ سنجیدہ لہجے میں کہہ رہی تھیں۔
”عائزہ نے میرے جذبوں کو بری طرح ہرٹ کیا ہے ،میں نے پوری سچائی و محبت کے ساتھ اس سے بندھن باندھ تھا ،میں نے کسی لڑکی سے معمولی فلرٹ بھی نہ کیا تھا ،بہت حفاظت سے اپنی محبت و خواہشوں کو ان چھوٹی کلیوں کی طرح پاکیزگی سے رکھا تھا ،میں بے حد کھرا اور ایماندار بندہ ہوں آنٹی! میں نے پوری دیانتداری سے اپنی وفا ،پیار و جذبے اپنی شریک حیات کیلئے سیو کر دیئے تھے اور مجھے بدلے میں کیا ملا؟“ اس کے وجیہہ چہرے پر شدید کرب و اذیت بکھر گئی تھی اس نے کافی ادھوری چھوڑ دی تھی ،زینب سے بھی پھر وہ کافی پی نہ گئی جب اس نے فاخر جیسے لمبے چوڑے خوبصورت مرد کو بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا۔
”شادی کی رات میرے کمرے میں قدم رکھتے ہی میری نئی نویلی دلہن مجھے دیکھتے ہی کہتی ہے پہلے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے پھر وہ اپنا افیئر بتاتی ہے اس کے لفظ میرے خواہشوں کے تازہ چمن پر بم کی طرح بلاسٹ ہو رہے تھے۔ میری مسرتوں کو آگ لگ رہی تھی۔ میری محتاط اور پاکیزہ زندگی میرا منہ چڑا رہی تھی۔ وہ اپنی عاشقی کے قصے سنا رہی تھی اور میرے اندر توڑ پھوڑ تھی۔
میں نے مرد ہو کر بھی کسی لڑکی کی پرچھائیں خود پر نہ پڑنے دی اور وہ لڑکی ہو کر بھی کسی کے گلے کا ہار بن گئی۔ شرم آتی ہے اپنی تقدیر پر مجھے کس قسم کی لڑکی میرے سے منسوب ہو گئی ہے۔ گھن آتی ہے اس کے نام سے بھی مجھے۔“ اس کے لہجے میں نفرت کے علاوہ کراہت کا شدید احساس تھا۔ بہت سرعت سے اس نے اپنے آنسو رومال سے صاف کئے تھے۔
”میں مانتی ہوں عائزہ کی بچکانہ حرکت نے تم کو ناقابل برداشت تکلیف پہنچائی ہے تم کو دکھ دیا ہے وہ بے حد شرمندہ ہے اور…!“
”آنٹی پلیز۔
“ میں اس ٹاپک پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔“ وہ کہہ کر چلا گیا تھا۔
###
”کس سے باتیں کر رہی تھیں تم؟“ عائزہ نے روم میں آتے ہوئے اسے موبائل رکھتے دیکھ کر پوچھا پھر اس کی آنسو بھری آنکھیں دیکھ کر گھبرا کر بولی۔
”بتاؤ نا کس کا فون تھا؟ کیا ہوا ہے تم رو کیوں رہی ہو؟“
”شیری کا فون تھا جھگڑا ہوا ہے میرا اس سے۔“ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
اس کے انداز میں شکستگی نمایاں تھی۔
”کیوں ہوا جھگڑا؟ میں تو کافی ٹائم سے ان کو یہاں آتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ،تم بھی اپنے روم میں بند پڑتی رہتی ہو۔“
”کیا کروں میری سمجھ نہیں آ رہا ہے شیری اس طرح دھوکہ دے گا میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی تب تو وہ میری محبت میں مرا جا رہا تھا اور اب کہتا ہے… اس کو مجھ سے محبت ہی نہیں ہے۔“ اس کی حالت پانی سے باہر گری مچھلی کی طرح ہو رہی تھی۔
عائزہ اس کو دیکھے گئی خوب طمطراق اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والی عادلہ کی کیفیت کسی زخمی پرندے جیسی تھی۔ اس میں عائزہ کو اپنا عکس نظر آنے لگا۔ راحیل کی بے وفائی و بدنیتی نے اس کو بھی اس طرح بدل کر رکھ دیا تھا۔ محبت کے فریب میں وہ بھی بھر بھری دیوار کی طرح ڈھے گئی تھی۔
”عادلہ! وہ تم پر کب سے مرنے لگا۔ پری پر وہ پہلی ملاقات میں ہی فریفتہ ہو چکا تھا یہ تم بھی جانتی ہو ،وہ اس کو پانے کیلئے پاگل ہو رہا تھا کیا کچھ نہیں کیا انہوں نے پری کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے مگر پری نے کسی بھی لمحے ان کے جذبوں کی پذیرائی نہیں کی۔
ہمیشہ ایسا رویہ رکھا ان کی کبھی ہمت ہی نہ ہوئی کچھ کہنے کی۔“
”میں نے ہمیشہ پری کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ،کوئی ایسا موقع نہیں ضائع کیا جس میں اس کی تذلیل ہوتی ہو اور اسی چکر میں خود گر گئی ہوں۔“ وہ عائزہ سے لپٹ کر رونے لگی۔
”یہ سب کرنے سے پہلے تم کو یہ بھی خیال نہیں آیا وہ پاپا کے بزنس پارٹنر کا بیٹا ہے۔ عابدی انکل کی فیملی سے ہمارے بہترین تعلقات ہیں؟ اگر وہ زبان کھول دے پاپا کے سامنے تو کیا ہوگا؟“عائزہ غصے سے اسے خود سے الگ کرتی ہوئی بولی۔
”وہ مجھے ابھی تک معاف نہیں کر سکے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوا تو قیامت آ جائے گی گھر میں یہ جانتی ہو تم؟“
”دروازے کے پیچھے سب باتیں سنتی صباحت پہلی بار سکتے میں آئی تھیں۔
###
بہت مشکلوں سے حاجرہ نے اعوان اور ماہ رخ کی ملاقات کا موقع نکال ہی لیا تھا۔ غفران احمر آج ایک دن کیلئے دوسرے شہر گیا تھا اور اس نے ذاکرہ کی مدد سے دلربا کے کھانے میں نیند کی دوا ملوا دی تھی۔
وہ اب بے خبر سو رہی تھی۔ پھر بھی احتیاطاً ذاکرہ اس کے کمرے کے اردگرد تھی اور حاجرہ گیسٹ روم کے باہر بیٹھی پہرہ دے رہی تھی۔
وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے ماہ رخ کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ اعوان بھی اضطرابی انداز میں دونوں ہاتھوں کو مسل کر بار بار ماہ رخ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دکھ ،تکلیف و ندامت تھی۔ ماہ رخ پر گزری حقیقت جان کر وہ خود کو اس کا مجرم سمجھنے لگا تھا۔
ساخر اس کو اتنا شدید دھوکا دے گا وہ گمان نہیں کر سکتا تھا اس نے اس کی زندگی کانٹوں پر ڈال دی تھی۔
”ماہ رخ آئی ایم سوری ،بلکہ سوری بہت معمولی لفظ ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں تم سے کس طرح معافی مانگوں؟ میری وجہ سے تمہارے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ انجانے میں میں ایک ایسے انسان سے دوستی کر بیٹھا جو سانپ کی فطرت رکھتا تھا جس نے موقع ملتے ہی تمہاری اور میری زندگیوں کو ڈس لیا۔
“ وہ کرب زدہ لہجے میں گویا ہوا تھا۔
”جو گزر گیا سو گزر گیا اب ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،میری خواہش ہے تم یہاں سے فوراً چلے جاؤ اور پھر کبھی مڑ کر بھی اس طرح نہ آنا ،اس ملاقات کو کسی بھیانک خواب کی مانند بھول جانا۔“ اس کا سپاٹ لہجہ ہر جذبے سے عاری تھا۔
”میں اپنی غلطیوں کا کفارہ ساری زندگی ادا کرتا رہوں گا۔ لیکن تم کو ماہ رخ ،اس جہنم میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔
تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔“ وہ جذباتی لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”اب مدت ہوئی ماہ رخ نے خواب دیکھنے چھوڑ دیئے ہیں اعوان صاحب ،ان خوابوں اور مہکتی خواہشوں کی بہت قیمت چکائی ہے میں نے وہ خواہشیں ناسور بن گئی ہیں اور زخموں سے اب جلد ہی زندگی کا رشتہ ٹوٹنے والا ہے۔ میں اب سبز باغ دیکھنا نہیں چاہتی۔ تم یہاں سے جاؤ ،قبل اس کے کہ غفران احمر تمہیں زندہ زمین میں دفن کر دے۔“ وہ کہہ کر کمرے سے باہر آئی تو خوف سے لرز کر رہ گئی۔

   1
0 Comments